Site icon Daira Din Panah – City Portal

آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت کیا ہے اور اس کی تصدیق کیسے ہوئی؟

سائنس میں کوئی بھی قانون یا نظریہ حرف آخر نہیں ہوتا، جوں جوں تحقیق آگے بڑھتی ہے ان سے متعلق مزید اہم نکات سامنے آتے رہتے ہیں اور بعض اوقات نئی تحقیق پرانے نظریے کو مکمل طور پر رد بھی کر دیتی ہے، مگر آئن اسٹائن کی تحقیقات کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود بھی بنیادی نظریہ اضافیت اور کشش ثقل سے متعلق ان کے پیش کیے گئے۔ قوانین کی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ بڑے پیمانے پر تصدیق ہو رہی ہےاور زمین سے ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ستاروں پر

بھی یہ قوانین اتنے ہی درست ثابت ہوئے ہیں جتنے زمین کی گریوی ٹیشنل فیلڈ میں مصدقہ تھے۔ سائنس میں معمولی دلچسپی رکھنے والا شخص بھی گلیلیو گلیلی کے پیسا ٹاور والے تجربے سے ضرور واقف ہوگا، اگرچہ اس تجربے کی صداقت کے حوالے سے متضاد بیانات سامنے آتے رہے ہیں مگر اس کے بارے میں خودگلیلیو کے اپنے شاگرد ونکازو ویویانی نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے جو 1717 میں شائع ہوئی۔ ویویانی کے مطابق گلیلیو نے 2 مختلف اجسام والے کرے پیسا ٹاور سے ایک ہی بلندی سے پھینک کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ آیا ان کے نیچے گرنے کے دورانیے پر ان اجسام کا ماس اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں ؟ بار بار کے تجربات کے بعد گلیلیو اس نتیجے پر پہنچے کے ہلکے اور بھاری تمام اجسام کے زمین کی طرف گرنے کے دورانیے اور رفتار میں فرق نہیں ہوتا اور تمام اجسام ایک ہی تناسب سے گرتے ہیں۔ آئن اسٹائن کا مشہور زمانہ نظریہ غلط ثابت ہونے کے قریب؟ گلیلیو کے تجربے کے کئی صدیوں بعد آئن اسٹائن نے اپنے بنیادی نظریہ اضافیت میں اس تصور کو دوبارہ پیش کیا کہ گرتے ہوئے اجسام ایک ہی تناسب سے زمین کی طرف آتے ہیں اور ان کی حرکت پر ان کا ماس اثر انداز نہیں ہوتا، اسی تھیوری کو خلاباز ڈیوڈ اسکاٹ نے اپولو 15 مشن کے دوران آزماتے  ہوئے چاند کی سطح پر ایک ہتھوڑے اور پرندے کے پر کے گرنے کے تناسب کو نوٹ کیا جو ایک ہی تھا۔ واضح ر ہے کہ چاند کی سطح پر کشش ثقل زمین سے 1،6 فیصد کم ہے۔ بیسویں صدی کے آخر میں ہبل ٹیلی اسکوپ خلاء میں بھیجے جانے کے بعد سائنسدانوں کی نئی کائناتوں کی تلاش میں تیزی آگئی اور اسی باعث انہیں موقع ملاکے وہ آئن اسٹائن کے بنیادی نظریہ اضافیت اور دیگر قوانین کو زمین سے ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ستاروں کے جھرمٹوں، بلیک ہولز اور کہکشاؤں پر لاگو کرکے دیکھیں کہ آیا یہ قوانین زمین سے کئی گنا بڑے اور زیادہ ماس والے اجسام پر صحیح ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ۔ آئن اسٹائن کو ہر دور کا ذہین ترین انسان اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بنیادی نظریہ اضا فیت، کشش ثقل سے متعلق اور جو دیگر قوانین 20 ویں صدی کے اوائل میں محض اپنی فہم و فراست کے بل بوتے پر پیش کیے تھے آج ان کی جدید ٹیکنالوجی سے تصدیق ہو رہی ہے۔ آئن اسٹائن کی کشش ثقل سے متعلق قانون کی تصدیق کے لییے سائنسدان ایک عرصے سے ایک نیچرل لیبارٹری (قدرتی تجربہ گاہ) کی تلاش میں تھے، 2011 میں گرین بینک ٹیلی اسکوپ کے ذریعے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن سے منسلک چند سائنسدانوں نے 3 ستاروں مشتمل ایک سسٹم دریافت کیا جسےایس آر 503371715 کا نام دیا گیا۔ یہ ستاروں کا سسٹم زمین سے 4 ہزار 200 نوری سالوں کے فاصلے پر وا قع ہے اور ان 3 ستاروں میں سے ایک نیوٹران اسٹار ہے۔ نیوٹران ستارے بے انتہا ٹھوس فلکیاتی اجسام کے ہوتے ہیں جن کی کشش ثقل اور کثافت کافی زیادہ لیکن رداس اور سائز کم ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر نیوٹرانوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس نیوٹران ستارے کے مدار کا دورانیہ ایک اعشاریہ چھ دن ہے، اس کے ساتھ 2 وائٹ ڈوارف ستاروں کی جوڑی تھی۔  یہ ایسے ستارے ہیں جو ہمارے سورج کی طرح اندرونی طور پر بہت متحرک ہوتے ہیں اور نیوکلیائی انشقاق ( فژن ری ایکشن ) کے ذریعے ان میں ہائیڈروجن ایٹم آپس میں مدغم ہوکر ہیلیم کا بڑا ایٹم بناتے رہتے ہیں، ان وائٹ ڈوارف ستاروں میں سے ایک کا گردشی دورانیہ 327 دن ہے۔ آئن اسٹائن تھیوری کی تصدیق میں پاکستانی نژاد سائنسدان کا کردار نیچر سائنس جنرل میں شائع ہونے والے مقالے کے مصنفین کے مطابق 3 ستاروں کا یہ نظام کچھ اس قسم کا تھا کہ یہ ہمیں آئن اسٹائن کے کشش ثقل سے متعلق قانون کو پرکھنے کے لیے ایک قدرتی لیبارٹری محسوس ہوا، کیوں کہ اس جیسا کوئی اور سسٹم اب تک ماہرین فلکیات کی نظر میں نہیں آ سکا۔ سائنسدان اس سسٹم کا کئی سالوں تک مشاہدہ کرتے رہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ نیوٹران ستارہ دراصل ‘پلسار’ تھا، جن کی کشش ثقل بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان سے مسلسل ریڈیائی موجیں /لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ستارے کچھ اس طرح سے گردش میں رہتے ہیں کہ ان کی گردش کا دورانیہ نوٹ کرتے ہوئے زمین پر موجود انتہائی حساس ایٹمی گھڑیاں بھی غلط ثابت ہوجاتی ہیں۔ اس نیوٹران ستارے سے آنے والے ریڈیائی پلسز یا سنگل کو انتہائی حساس گرین بینک دور بین نے ڈیٹیکٹ کیا تھا، ماہرین کے مطابق اس ستارے سے ایک سیکنڈ میں 366 بار سگنل کا اخراج ہو رہا تھا اور انہوں نے کئی برس تک اس کے ایک ایک سگنل کو چیک کیا۔ حاصل ہونے والے اعداد و شمار اس قدر جامع تھے کہ ماہرین اس نیوٹران ستارے کے بارے میں بلکل درست بتا سکتے تھے کہ اس وقت وہ کس مقام پر ہوگا اور آئندہ کب، کس مقام کی طرف رخ کرے گا۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ نیوٹران ستارے اور اس کے ہمسایہ ڈوارف ستاروں کو اگر پرکھا جائے تو غلطی کے امکانات بہت کم تھے۔ ایک صدی بعد آئن اسٹائن کا خیال درست ثابت ہوگیا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ چوں کہ نیوٹران ستارے اور اس کے ساتھ اندرونی وائٹ ڈوارف ستارے کے ماسز میں بہت زیادہ فرق تھا اور اندرونی ڈوارف کی گریوی ٹیشنل انرجی کم تھی اس لیے ان دونوں کو باہر کی جانب والے ( بیرونی ) ڈوارف ستارے کی جانب جھکنا چاہیے لیکن ان کے جھکاؤ کی حالت ایک جیسی نہیں ہونی چاہیے تھی اور دونوں کے ماس میں فرق کے باعث ان کے گردشی اثر میں واضح فرق ہونا چاہیے تھا ۔ کیوں کہ آئن اسٹائن کے کشش ثقل سے متعلق اصول کے متبادل قوانین بھی یہی پیش گوئی کرتے ہیں، مگر سالہا سال تک ان تینوں ستاروں کا مکمل جائزہ لینے کے باوجود سائنسدانوں کو ان کے جھکاؤ اور گردشی اثر میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہوا، جو آئن اسٹائن کے بنیادی نظریۂ اضافیت کی خلاء میں بڑے اسکیل پر براہ راست تصدیق تھی کہ تمام اجسام چاہے وہ جسامت میں کتنے ہی بڑے اور بھاری ہوں۔ اور زمین کی کشش ثقل کی مناسبت سے کتنے ہی زیادہ طاقتور ثقلی میدان میں گھرے ہوئے ہوں،ان کے آزادانہ گرنے کا تناسب ایک ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی بہت ہی زیادہ کشش ثقل والے ماحول میں اجسام کے گرنے کے جھکاؤ میں کوئی فرق نوٹ بھی کیا جائے تو وہ ایک ملین کا محض ایک تہائی حصہ ہوگا۔ اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ کشش ثقل سے متعلق آئن اسٹائن کا ‘اسٹرانگ ایکیو ویلنس ‘ یا اجسام کے گردشی اثر میں یکسانیت والا اصول فلکیاتی اجسام کے لیے بھی درست ہے، یہ اس امر کی جانب ایک اشارہ بھی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کائنات کی مزید سرحدوں کو پار کر کے سائنسدانوں کو نہ صرف آئن اسٹائن کے دیگر قوانین بلکہ فزکس کے اور بہت سے قوانین کو بڑے پیمانے پر پرکھنے کے لیے مزید قدرتی تجربہ گاہ مل سکتی ہیں۔

Exit mobile version