پاکستان

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی مشروط توسیع دے دی ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ چھ ماہ کے بعد پارلیمنٹ فیصلہ کرے کہ نیا آرمی چیف لگانا ہے یا جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی ایکسٹینشن دینی ہے۔

عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ ’آرمی چیف کی موجودہ تقرری چھ ماہ کے لیے ہوگی۔ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتے ہیں۔‘

سپریم کورٹ نے اس معاملے پر قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔

قبل ازین آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر تیسرے روز سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت سے یقین دہانیاں طلب کی تھیں جس کے بعد شارٹ آرڈر جاری کرنے کا کہا تھا۔

جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ ’اگر حکومت چار یقین دہانیاں کروا دے تو اس صورت میں آج ہی شارٹ آرڈر یا مختصر حکم نامہ جاری کر دیا جائے گا۔‘

ان یقین دہانیوں میں توسیع کے نوٹیفیکشن سے تین سال کی مدت کو نکالنا، تنخواہوں اور مراعات کا تذکرہ، چھ ماہ کے اندر اندر اس مسئلے پر جامع قانون سازی اور یقینی بنایا جائے کہ یہ سب کچھ عدالت کے حکم پر نہیں کیا جا رہا۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اس اہم مقدمے کی سماعت کے تیسرے دن آغاز میں ہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو دی جانے والی توسیع اور جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات طلب کی تھیں۔

بدھ کی رات طویل مشاورت کے بعد حکومت نے ایک نیا نوٹیفیکشن تیار کیا تھا اور اٹارنی جنرل انور منصور نے جمعرات کو عدالت کو بتایا کہ یہ نوٹیفیکیشن آرٹیکل 243 کے تحت جاری ہوا ہے۔

جمعرات کو سماعت شروع ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا ’ہمیں مطمئن کریں کہ اب جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست ہے۔ ادارے اپنا بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھوں پر نہ رکھیں۔

’یہ نوٹیفیکیشن ایسا ہی ہے جیسے ایف آئی آر میں معزز جج کے نام کا ذکر ہو اس میں ہماری ایڈوائزری کا ذکر نہ کریں۔‘

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو دی جانے والی توسیع اور جنرل (ریٹائرڈّ) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات طلب کی تھیں: فائل فوٹو اے ایف پی

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ’243 کے تحت تعیناتی کی مدت کا تعین نہیں ہے، آپ نے آرمی چیف کا نوٹیفیکیشن 28 نومبر کو جاری کیا ابھی تو یہ عہدہ خالی بھی نہیں ہوا، تین سال کی تقرری کا ذکر کیسے کیا جا سکتا ہے۔‘

اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوئی معقول وقت تو دینا ہو گا۔

جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’پہلے وہ بھی نہیں تھا، لگتا ہے آپ سمجھ دار ہوتے جا رہے ہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون میں خلا رہ گیا ہے، ماضی میں اس طرح کی پریکٹسز ہوتی رہیں لیکن اپنے سمجھ کے مطابق سب کو چلاتے رہے، اب یہ معاملہ پہلی دفعہ اٹھایا گیا ہے اس کی مین سٹریمنگ ضروری ہے۔‘

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’آج سروسز ایکٹ کی کتاب دیکھی تو ایجنٹ قرار دیا گیا، کہا جا رہا ہے یہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے، پہلی بار ففتھ جنریشن وارکا ذکر سنا تو پتہ کروایا کہ یہ ہے کیا۔ اس کتاب کو اتنا چھپا کر رکھا گیا کہ کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا، ہم سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔‘

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا ’ہماری اس بحث کا انڈیا میں بہت فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔‘

اگست میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں تین برس کی توسیع کی گئی تھی : فائل فوٹو اے ایف پی

آرمی چیف کی توسیع کے خلاف درخواست جیورسٹس فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھی لیکن منگل کو سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کی جانب سے سادہ کاغذ پر درخواست واپس لینے کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔

چیف جسٹس نے منگل کو ابتدائی سماعت کرتے ہوئے مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفیکیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے تھے اور ریمارکس دیے تھے کہ ’وزیراعظم کو آرمی چیف کی تقرری کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔‘

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ’سکیورٹی صورتِ حال واضح اصطلاح نہیں اور اس کی بنیاد پر کوئی بھی اعلیٰ افسر توسیع کا مطالبہ کر سکتا ہے۔‘

منگل کو چیف جسٹس نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔

سماعت کے دوسرے روز حکومت کی جانب سے دلائل اٹارنی جنرل انور منصور خان نے پیش کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ ’آئین کے تحت وزیراعظم پاک فوج کے ماضی میں کسی بھی ریٹائر ہونے والے جنرل کو آرمی چیف تعینات کر سکتے ہیں کیونکہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ ریٹائرڈ جنرل آرمی چیف نہیں بن سکتا۔‘

تعیناتی اور مدت ملازمت سے متعلق اٹارنی جنرل کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں کچھ لکھا گیا ہے، وزیر اعظم کے جاری کیے گئے نوٹفیکیشن میں کچھ اور ہے جبکہ صدر کا نوٹیفکیشن الگ کہانی بیان کر رہا ہے۔ کون لوگ ہیں جو یہ سب کر رہے ہیں۔ ان کی ڈگریاں چیک کروائیں۔ آئینی اداروں میں روز ایسا ہوتا رہا تو مقدمات کی بھرمار ہو گی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کو کیا جا رہا ہے۔ ’آرمی چیف کو شٹل کاک کیوں بنایا گیا؟ آرمی بغیر کمانڈ ہوئی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا تو کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہوگا۔‘

’سکیورٹی صورتِ حال واضح اصطلاح نہیں اور اس کی بنیاد پر کوئی بھی اعلیٰ افسر توسیع کا مطالبہ کر سکتا ہے،‘ چیف جسٹس۔

اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ اور اس کے تحت بننے والے ریگولیشنز سے کئی ایک اہم عہدوں کی تعریفات اور آرمی افسران سے متعلق شقیں پڑھ کر سنائیں۔

تمام قواعد اور ریگولیشنز پڑھ لینے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ان میں کہیں بھی توسیع اور دوبارہ تقرری کا ذکر نہیں ملتا۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’ابھی تک ایک بھی ایسی شق نہیں ملی جس کے تحت کسی شاندار افسر کو یہ کہہ کر روک لیا گیا ہو کہ آپ ریٹائر نہ ہوں ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔‘

سماعت میں اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت سے کہا کہ ’وہ کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتے ہیں کہ منگل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔ ایک تازہ فہرست  آئی ہے جس کے مطابق 19 ارکان نے منظوری دی۔ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔‘

منگل کو اس معاملے پر وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ہوا تھا جس کے بعد وزیر تعلیم شفقت محمود نے بتایا کہ ’وفاقی کابینہ نے ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کرتے ہوئے ’مدت ملازمت میں توسیع‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔‘

 ان کا  کہنا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت مدت ملازمت میں توسیع وزیراعظم کی صوابدید ہے، وہ صدر کو ایڈوائس جاری کر سکتے ہیں۔‘

اسی بریفنگ میں وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ ’وزیر قانون فروع نسیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں اور بدھ کو وکیل کی حیثیت سے آرمی چیف کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔‘

 شیخ رشید نے کہا تھا کہ ’کابینہ کے اجلاس میں تمام وزرا اور اتحادیوں نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع دینے کے فیصلے کو سراہا۔‘

Back to top button