پاکستان

ملک بھر میں ’’جیپ‘‘ کے بعد ’’مٹکے‘‘ کے چرچے، سب سے زیادہ امیدوار ’’جیپ‘‘ نہیں بلکہ ’’مٹکا‘‘ کے ہیں، کون کون اس انتخابی نشان پر انتخاب لڑ رہا ہے؟ چونکا دینے والے انکشافات

سب سے زیادہ شور اور زور اس بات پر ہے کہ جیپ کے انتخابی نشان والے امیدواروں میں اضافہ ہو گیا ہے اور ان کی تعداد زیادہ ہے لیکن ایک تجزیہ سامنے آیا ہے جس کے مطابق انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے حوالے سے جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں جیپ کے مقابلے میں مٹکوں کی تعداد زیادہ نظر آ رہی ہے، ن لیگ کو آخری وقت میں چھوڑ کر جانے والے امیدواروں کی اکثریت کا انتخابی نشان جیپ ہے، اسی طرح مٹکا کا انتخابی نشان حاصل کرنے والوں کی اکثریت میں زیادہ تر تحریک انصاف کے

ناراض رہنما ہیں جو پارٹی ٹکٹ نہ حاصل کر سکے۔ تجزیے کے مطابق اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور مٹکا کا انتخابی نشان حاصل کرنے والوں میں بھی اکثر بڑے نام شامل ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کرتے وقت مٹکے جیپ میں ہی رکھ دیے جائیں اور امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیپ کو چوہدری نثار علی خان ہی چلائیں اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شاید ڈرائیونگ سیٹ پر نہ بٹھایا جائے۔ بہرحال یہ سب قیاس آرائیاں ہی ہیں، آخری اور حتمی فیصلہ تو انتخابات کے نتائج پر ہی ہو گا اور جو بارگین کرنے کی پوزیشن میں حکومت اسی کو ملتی نظر آ رہی ہے، تجزیے کے مطابق موجودہ صورتحال میں کوئی بھی جاعت واضح اکثریت حاصل کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے، اگر جنوبی پنجاب پر نظر دوڑائی جائے تو جیپ پر گیارہ سے زائد قومی اور تیرہ سے زائد صوبائی امیدوار سوار ہیں جن میں سلطان محمود ہنجرا، سردار دوست محمد خان کھوسہ، شیر علی گورچانی، ڈاکٹر حفیظ اللہ دریشک، عبدالقیوم جتوئی، امجد فاروق کھوسہ بھی شامل ہیں، اگر مٹکے کو دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب میں قومی اسمبلی کے لیے پندرہ جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے 29 کے قریب آزاد امیدوار تھامے ہوئے ہیں۔ تجزیہ کے مطابق اگر جنوبی پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقوں پر نظر دوڑائی جائے تو این اے 154 سے آزاد امیدوار سابق وفاقی وزیر سکندر بوسن، این اے 155 سے تحریک انصاف سے ناراض سٹی صدر خالد خاکوانی، این اے 156 سے شہزاد ممتاز این اے 170 سے ملک عثمان فاروق، این اے 151 سے عابد محمود کھگہ، این اے 150 سے سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام، این اے 195 سے غلام فرید کوریجہ، این اے 181 سے شبیر علی قریشی، این اے 190 میں سردار اشفاق سرور خان دستی، این اے 164 سے نعیم بھابھہ، این اے 162 سے ارشاد آرائیں، این اے 165 سے حقداد علی خان، این اے 189 سے کنفیوشس امام قیصرانی، این اے 191 سے تنویر احمد، اسی طرح اگر صوبائی حلقوں پر نظر ڈالی جائے تو ملتان کے صوبائی حلقہ 211 سے شوکت حیات بوسن، پی پی 212 سے طاہر کھوکھر، پی پی 213 سے شیخ صادق حسین، پی پی 216 سے محمد اکمل، پی پی 246 سے محمد عثمان فاروق، پی پی 206 سے شیخ احتشام، پی پی 209 سے محمد جمیل شاہ، پی پی 226 سے ارشد اقبال، پی پی 227 سے محمد ارسلان خان، پی پی 228 سے حسن محمود شاہ، پی پی 275 سے مسز خان محمد خان جتوئی، پی پی 203 سے سید خاور علی شاہ، پی پی 272 سے راؤ عاطف علی خان، پی پی 204 سے حسین جہانیاں گردیزی، پی پی 278 سے میاں ذیشان گرمانی، پی پی 279 سے ملک شکیل احمد، پی پی 287 سے اشفاق سرور دستی، پی پی 233 سے سعید منہیس، پی پی 235 سے محمد نواز، پی پی 236 سے حاجی احمد یار اچار والے، پی پی 291 سے امجد خان لاشاری، پی پی 286 سے محمد اکرم ملغانی، پی پی 290 سے امان اللہ، پی پی 234 سے رانا فخر الاسلام، پی پی 229 سے نعیم اعجاز، پی پی 230 ارشاد آرائیں، پی پی 231 شہزاد فرید اور پی پی 232 ملک نوشیر انجم بھی شامل ہیں۔ اس تجزیے کے مطابق قومی اسمبلی میں پورے ملک سے پچاس کے لگ بھگ جیپ اور مٹکے پہنچائے جائیں گے۔

Back to top button